کاش! جوانی میں ہی کھانا گرم کر دیتی | سبق آموز کہانی

Rate this post

یہ کہانی ایک ایسی عورت کی ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا کر زندگی کے خوبصورت رشتوں سے محروم ہو گئی۔ شادی، طلاق، بھائی کی بے رخی، نوکری کی مجبوری اور بڑھاپے کی تنہائی نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ “کاش! جوانی میں ہی کھانا گرم کر دیتی۔۔!!” یہ تحریر ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ رشتے ضد سے نہیں بلکہ محبت اور قربانی سے چلتے ہیں۔

کاش! جوانی میں ہی کھانا گرم کر دیتی۔۔۔!!

شادی سے پہلے

بیٹی:
پاپا میں کسی کی غلامی نہیں کر سکتی۔

باپ:
کوئی کسی کی غلامی نہیں کرتا میری بچی۔ سب اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ جو کام عورتوں کے لئے مشکل ہوتے ہیں، وہ مرد کرتے ہیں اور جو مردوں کے لئے مشکل ہوتے ہیں، وہ عورتیں کرتی ہیں۔ یونہی مل جل کر گزارا ہوتا ہے۔

شادی کے بعد

بیوی:
میں کھانا گرم نہیں کروں گی۔

شوہر:
تو اپنے باپ کے گھر واپس چلی جاؤ۔ میں تمہاری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صبح سے شام تک محنت کرتا ہوں اور تم میری ضروریات پوری نہیں کرسکتی تو ٹھیک ہے پھر مجھے بھی تمہاری ضرورت نہیں۔

سبق آموز کہانیاں

طلاق کے بعد

اسلام آباد کی سڑکوں پر بینر اٹھائے ہوئے:

  • کھانا خود گرم کر لو۔
  • کھانا خود گرم کر لو۔
  • کھانا خود گرم کر لو۔
  • کھانا خود گرم کر لو۔

باپ کے مرنے کے بعد

بھائی:
دیکھو میری بہن! میں اب فیملی والا ہوں، میری بیوی تمہیں اور برداشت نہیں کر سکتی۔ تم اپنا بندوبست کہیں اور کر لو۔

نوکری کی تلاش میں

دفتر والے:
ہمارے پاس ایک فی میل ریسپشنسٹ کی جگہ خالی ہے۔ آپ ماشاء اللہ خوبصورت ہیں، آپ ہمارے ہاں کام کر سکتی ہیں۔

ڈھلتی عمر

دفتر والے:
بی بی! ہم معذرت خواہ ہیں، آپ کے کام میں اب پہلے جیسی تندہی نہیں رہی لہٰذا آپ کہیں اور نوکری ڈھونڈ لیں۔ ہمیں اب آپ کی ضرورت نہیں رہی۔

ظالم بڑھاپا

نئی جگہ والا:
محترمہ! آپ کی اتنی عمر ہو گئی ہے، اب میں آپ کو کیا نوکری دوں؟ اب تو آپ کو آرام سے اپنے بچوں کی کمائی کھانی چاہیئے۔

بینر والی آنٹی:
میرے بچے نہیں ہیں، کوئی نہیں ہے میرا۔

نیو دفتر والا:
اوہ! چلیں میں آپ کے لئے کچھ کرتا ہوں۔ میرا 20 لوگوں کا اسٹاف ہے، کیا آپ ان سب کے لیئے کھانا پکا سکتی ہیں؟ میں آپ کو چھ (6) ہزار روپے ماہانہ دوں گا۔

لبرل آنٹی:
صرف چھ (6) ہزار؟

نیو دفتر والا:
میں جانتا ہوں کہ ان چھ ہزار میں آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوتی، مگر میں مجبور ہوں، میرے پاس اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔

بینر والی آنٹی:
ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔

انجام

اس کی آنکھوں سے آنسو زار زار بہہ رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی:

کاش! جوانی میں ہی کھانا گرم کر دیتی۔۔!!

سبق آموز نتیجہ

زندگی میں کبھی بھی چھوٹے چھوٹے کاموں کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی سہولت کے لئے چھوٹی بڑی قربانیاں دیتے ہیں، تبھی رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ اگر عورت یا مرد ضد اور انا کو ترجیح دیں تو نتیجہ ہمیشہ پچھتاوے کی صورت میں نکلتا ہے۔
یاد رکھیں! خوشحال ازدواجی زندگی کی بنیاد محبت، قربانی اور ایثار ہے، نہ کہ ضد اور جھگڑا۔

نتیجہ (Conclusion)

رشتوں میں ضد اور انا ہمیشہ بربادی کا باعث بنتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں پر جھگڑنے کے بجائے اگر میاں بیوی ایثار اور قربانی دکھائیں تو زندگی سکون اور خوشی سے گزرتی ہے۔ ورنہ بڑھاپے میں صرف پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top