میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں۔ یہ زندگی کا ایک ایسا تجربہ تھا جس نے مجھے صبر، برداشت اور حقیقت کو سمجھنے کا موقع دیا۔ تعلیم اور جہالت کے فرق نے کئی بار مشکلات پیدا کیں، لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی دلایا کہ رشتہ صرف تعلیم یا ڈگری پر نہیں بلکہ سمجھ بوجھ، عزت اور محبت پر قائم ہوتا ہے۔ اس بلاگ میں ہم انہی پہلوؤں پر بات کریں گے۔
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس نے مجھے زندگی کے کئی نئے پہلوؤں سے روشناس کرایا۔ جب ایک تعلیم یافتہ عورت کی شادی ایک ایسے مرد سے ہو جائے جو ان پڑھ ہو، تو اس میں کئی مشکلات، چیلنجز اور آزمائشیں سامنے آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ رشتہ صرف تعلیم پر نہیں بلکہ محبت، عزت اور برداشت پر قائم رہتا ہے۔
تعلیم اور جہالت کا فرق

ایک تعلیم یافتہ عورت اور ان پڑھ مرد کے درمیان سب سے بڑا فرق سوچ اور اندازِ فکر کا ہوتا ہے۔ جہاں عورت چیزوں کو جدید اور منطقی انداز میں دیکھتی ہے، وہیں ان پڑھ مرد اکثر پرانے خیالات اور سادہ فہم پر عمل کرتا ہے۔ یہی فرق کئی بار جھگڑوں اور غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔
ازدواجی زندگی میں مشکلات
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں، اس فرق نے کئی مسائل پیدا کیے:
- کمیونیکیشن گیپ: پڑھا لکھا شخص بات چیت میں آسانی محسوس کرتا ہے جبکہ ان پڑھ اکثر شرماتا ہے یا الفاظ درست استعمال نہیں کر پاتا۔
- فیصلے لینے میں دشواری: گھریلو یا مالی فیصلوں میں سوچ کا فرق سامنے آتا ہے۔
- سماجی مسائل: تعلیم یافتہ بیوی کو خاندان اور سوسائٹی کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صبر اور برداشت کی اہمیت
شادی کو کامیاب بنانے کے لیے صبر سب سے ضروری ہے۔ جب عورت یہ سمجھ لے کہ تعلیم اور جہالت دونوں کی اپنی حقیقت ہے تو وہ اپنے شوہر کی خامیوں کو برداشت کرنا سیکھ جاتی ہے۔ یہی برداشت رشتے کو مضبوط بناتا ہے۔
محبت اور عزت – کامیابی کی کنجی
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں، لیکن ایک بات ہمیشہ میرے دل کو مطمئن کرتی ہے: میرا شوہر مجھے عزت دیتا ہے۔ تعلیم نہ ہونے کے باوجود اس کی محبت اور خلوص میرے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ یہی جذبہ ہر مشکل کو آسان بناتا ہے۔
رشتے کو کامیاب بنانے کے طریقے

اگر آپ کی بھی شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی ہے تو یہ چند اصول مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
- بات چیت کو آسان اور واضح رکھیں۔
- شوہر کو نیچا دکھانے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔
- چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر تعریف کریں۔
- فیصلوں میں شوہر کی رائے کو شامل کریں۔
- ہمیشہ ایک دوسرے کو عزت دیں۔
کامیاب شادی کی مثال
بہت سی عورتیں ایسی ہیں جن کی شادیاں ان پڑھ مردوں سے ہوئیں لیکن آج وہ خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی کمزوریوں پر نہیں بلکہ خوبیوں پر توجہ دیتی ہیں۔
ان پڑھ سے شادی
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں ، سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا لیکن کچ مجبوریوں میں ایک ان پڑھ سے شادی کر دی گئی
مجھے اس سے بدبو آتی تھی ان کا کام اتنا اچھا نہ تھا ، خیر میں اللہ کے سامنے رو کر دعا مانگتی تھی ، یا اللہ یا تو اسکو کو مار دے یا پھر اس
سے جان چھڑوا دو میری کسی طرح وہ جاہل سابولنے کا بھی نہیں پتا
میں ہر بات پہ اس کو بے عزت کر دیتی تنقید کرتی اس پہ غصہ کرتی ، وہ مجھے پیار سے سمجھاتا کبھی پہ کرتی ، چپ ہو جاتا کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلا جاتا میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کے بس طلاق لینی ہے
امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے نہ کرو ہے: ایسا بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے ، باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو ، لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی تھی ، میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچہ نہیں دیتا مجھے ، امی ابو نے اسکو بلوا لیا وہ میرے سامنے بیٹھا تھا
امی ابو کہنے لگے کیوں بھای تم شہزادی کو خرچہ کیوں نہیں دیتے ، وہ بابا سے مخاطب ہو کر بولا انکل جی جو کما کر لاتا ہوں سب اخراجات نکال کر جو بچتا یے اسکے ہاتھ پہ رکھ دیتا ہوں
میرے چاچا تایا سب موجود تھے وہاں ، میں بولی مجھے 30 ہزار روپے ہر مہینے چاہئے بس اس شرط پہ ہی جاوں گی وہ خاموش ہو گیا سر جھکائے بیٹھا تھا ، چاچا بولے ہاں بھائی سکتے ہو خرچہ 30 ہزار ، کچھ ، کچھ لمحے خاموش رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا
لمبی سانس لی بولا ٹھیک ہے میں اسکو 30 ہزار روپے دوں گا الگ سے ہر مہینے ، میں نے دل میں گالی دی کمینے دیکھنا جینا حرام کرد کر دوں گی تمہارا ، میں اسکے ساتھ چلی گئی بجلی پانی گیس کا بل راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے

خیر وہ مجھے ہر مہینے 30 ہزار روپے دیتا ایک دن میں نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو ، میں بس تنگ کرنا چاہتی تھی کہ مجھے طلاق د دے ، وہ مسکرانے لگا میرے پاوں پکڑے اور بولا لے دوں گا پریشان نہ ہو ، تم بس مجھے چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو جو کہو گی کروں گا
میں کبھی کھانے میں مرچ ڈال دیتی تو کبھی زیادہ نمک وہ تھکا ہارا کام سے آتا کھانا کھا کر بے ہوشی کی طرح سو جاتا ، نہ جانے کون سا کام کرتا تھا ، میں جتنی نفرت کرتی تھی اس جاہل سے وہ اتنی محبت کرتا تھا
میں ایک دن اپنی دوست کے ساتھ کار میں شاپنگ کرنے جا رہی تھی شہر کے سب مہنگے اور بڑے مال میں ، جب ہم ایک بس اڈے کے پاس سے گزرے تو میری زندگی نے جو لمحہ دیکھا میں بے جان ہو گئی
وہ جسے میں بہت نفرت کرتی تھی جس کو میں جاہل ان پڑھ کہتی تھی ، جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا ، جس کا کبھی حال نہ پوچھا تھا ، جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی
جسے میں قبول ہی نہیں کرنا چاہتی تھی وہ سر پہ بوجھ اٹھائے کسی کا سامان بس پہ چڑھا رہا تھا ، ٹانگیں کانپ رہی تھی پرانے سے کپڑے پہنے پسینے سے شرابور پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی
میں مرکیوں نہ گئی تھی ، وہ میرے لیئے کیا کچھ کر رہا تھا ، اتنے میں ایک شخص بولا اوئے چل یہ سامان اٹھا اور دوسری بس کی چھت پہ
لوڈ کر ، اسکو شاید بھوک لگی تھی ، ہاتھ میں روٹی پکڑی رول کیا ہوا ساتھ روٹی کھا رہا تھا ساتھ سامان اٹھا رہا تھا
میں قربان جاوں وہ میرے۔ وہ میرے لیئے کس درد سے گزر رہا تھا ، میں آنسو لیئے دیکھتی رہی ، کام ختم ہوا وہاں سائیڈ پہ ایک دکان کے سامنے زمین پہ بیٹھ گیا ، کتنی بے بسی تھکن تھی اس میں سارا دن وہاں درد سہنا رات کو میری باتیں
وہ حادثہ تھا یا اللہ کی مرضی بس میرا دل بدل گیا میں بن بتائے کچھ خریدے گھر واپس لوٹ گئی ، بہت روئی تھی بہت زیادہ ، اسکو پلاو پسند تھا میں نے پلاو بنایا ، وہ گھر آیا ، اس سے پہلے کبھی کھانا نہیں دیتی تھی ، خود گرم کر کے کھاتا تھا
مجھے سلام کیا کچن میں گیا پلاو دیکھ کر بولا آج تو آپ نے کمال کر دیا ، ایک سال بعد پلاو کھانے لگا ہوں ، وہ کھانا پلیٹ میں ڈال کر میرے پاس بیٹھ گئے ، کھانا کھانے لگے میں اسکی طرف دیکھے جا رہی تھی
وہ کتنا درد سہتا ہے اور بتاتا بھی نہیں ، میں کتنی اذیت دیتی ہوں کوئی شکوہ نہیں ، اس پہ آج مجھے بہت پیار آ رہا تھا ، دل چاہ رہا تھا سینےسے لپٹ جاوں اس نے کھانا کھایا پھر جیب سے پیسے نکالے کہنے لگا یہ لو 30 ہزار ،، میں چیخ چیخ کر رونے لگی اسکے پاوں چوم لیئے
مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے ، مجھے یہ پیسے نہیں چاہئے ، وہ حیران تھا مجھے کیا ہو گیا ہے ، اس نے میرا ہاتھ تھاما اور بولے اگر یہ پیسے کم ہیں تو اور لا دوں گا مجھے چھوڑ کر نہ جانا
کہنے لگے شہزادی بہت بھولی ہو تم ، پاگل تم بچھڑنے کے بعد کہاں بھٹکو گی خدا جانے ، بہت پیار کرتا ہوں نا تم سے اسلیئے تم کو خود سے دور نہیں کر سکتا ، میں اسکے سینے سے لگ گئی ، آج مجھے نہ کوئی آئی فون چاہئے تھا نہ کوئی بڑا گھر گاڑی ، مجھے اب دنیا کی کوئی خبر نہ تھی میری دنیا میرا شوہر بن چکا تھا
نتیجہ
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں، یہ ایک چیلنج ضرور تھا مگر ناممکن نہیں۔ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے لیکن اصل خوشی رشتے کی مضبوطی، عزت اور محبت میں ہے۔ اگر ہم برداشت، صبر اور عزت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو کوئی فرق رشتہ کمزور نہیں کر سکتا۔
Pingback: کاش! جوانی میں ہی کھانا گرم کر دیتی | سبق آموز کہانی